جبیں پر خاک ہے یہ کس کے در کی
بلائیں لے رہا ہوں اپنے سر کی
مبارک عظیم آبادی
جناں کی کہتے ہیں یوں مجھ سے حضرت واعظ
کہ جیسے دیکھی نہ ہو یار کی گلی میں نے
مبارک عظیم آبادی
جو دل نشیں ہو کسی کے تو اس کا کیا کہنا
جگہ نصیب سے ملتی ہے دل کے گوشوں میں
مبارک عظیم آبادی
جو لڑکھڑائے قدم مے کدے میں مستوں کے
بغل میں حضرت ناصح تھے بڑھ کے تھام لیا
مبارک عظیم آبادی
جو نگاہ ناز کا بسمل نہیں
دل نہیں وہ دل نہیں وہ دل نہیں
مبارک عظیم آبادی
جو قیامت کا نہیں دن وہ مرا دن کیسا
جو تڑپ کر نہ کٹی ہو وہ مری رات نہیں
مبارک عظیم آبادی
جو ان کو چاہئے وہ کیے جا رہے ہیں وہ
جو مجھ کو چاہئے وہ کیے جا رہا ہوں میں
مبارک عظیم آبادی

