پردے پردے میں بہت مجھ پہ ترے وار چلے
صاف اب حلق پہ خنجر چلے تلوار چلے
دورئ منزل مقصد کوئی ہم سے پوچھے
بیٹھے سو بار ہم اس راہ میں سو بار چلے
کون پامال ہوا اس کی بلا دیکھتی ہے
دیکھتا اپنی ہی جو شوخیٔ رفتار چلے
بے پیے چلتا ہے یوں جھوم کے وہ مست شباب
جس طرح پی کے کوئی رند قدح خوار چلے
چشم و ابرو کی یہ سازش جگر و دل کو نوید
ایک کا تیر چلے ایک کی تلوار چلے
کچھ اس انداز سے صیاد نے آزاد کیا
جو چلے چھٹ کے قفس سے وہ گرفتار چلے
جس کو رہنا ہو رہے قیدئ زنداں ہو کر
ہم تو اے ہم نفسو پھاند کے دیوار چلے
پھر مبارکؔ وہی گھنگھور گھٹائیں آئیں
جانب مے کدہ پھر رند قدح خوار چلے
غزل
پردے پردے میں بہت مجھ پہ ترے وار چلے
مبارک عظیم آبادی