وہ میرا جب نہ ہو سکا تو پھر یہی سزا رہے
کسی کو پیار جب کروں وہ چھپ کے دیکھتا رہے
مظہر امام
ہم گرفتاروں کو اب کیا کام ہے گلشن سے لیک
جی نکل جاتا ہے جب سنتے ہیں آتی ہے بہار
مظہر مرزا جان جاناں
اتنی فرصت دے کہ رخصت ہو لیں اے صیاد ہم
مدتوں اس باغ کے سایہ میں تھے آزاد ہم
مظہر مرزا جان جاناں
جو تو نے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے
غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا
مظہر مرزا جان جاناں
خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو
یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے
مظہر مرزا جان جاناں
رسوا اگر نہ کرنا تھا عالم میں یوں مجھے
ایسی نگاہ ناز سے دیکھا تھا کیوں مجھے
مظہر مرزا جان جاناں
اس گل کو بھیجنا ہے مجھے خط صبا کے ہاتھ
اس واسطے لگا ہوں چمن کی ہوا کے ہاتھ
مظہر مرزا جان جاناں

