EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہ میرا جب نہ ہو سکا تو پھر یہی سزا رہے
کسی کو پیار جب کروں وہ چھپ کے دیکھتا رہے

مظہر امام




ہم گرفتاروں کو اب کیا کام ہے گلشن سے لیک
جی نکل جاتا ہے جب سنتے ہیں آتی ہے بہار

مظہر مرزا جان جاناں




اتنی فرصت دے کہ رخصت ہو لیں اے صیاد ہم
مدتوں اس باغ کے سایہ میں تھے آزاد ہم

مظہر مرزا جان جاناں




جو تو نے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے
غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا

مظہر مرزا جان جاناں




خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو
یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے

مظہر مرزا جان جاناں




رسوا اگر نہ کرنا تھا عالم میں یوں مجھے
ایسی نگاہ ناز سے دیکھا تھا کیوں مجھے

مظہر مرزا جان جاناں




اس گل کو بھیجنا ہے مجھے خط صبا کے ہاتھ
اس واسطے لگا ہوں چمن کی ہوا کے ہاتھ

مظہر مرزا جان جاناں