چلی اب گل کے ہاتھوں سے لٹا کر کارواں اپنا
نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا
یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے
اگر ہوتا چمن اپنا گل اپنا باغباں اپنا
الم سے یاں تلک روئیں کہ آخر ہو گئیں رسوا
ڈوبایا ہائے آنکھوں نے مژہ کا خانداں اپنا
رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی
مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشق بدگماں اپنا
مرا جی جلتا ہے اس بلبل بیکس کی غربت پر
کہ جن نے آسرے پر گل کے چھوڑا آشیاں اپنا
جو تو نے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے
غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا
کوئی آزردہ کرتا ہے سجن اپنے کو ہے ظالم
کہ دولت خواہ اپنا مظہرؔ اپنا جان جاںؔ اپنا
غزل
چلی اب گل کے ہاتھوں سے لٹا کر کارواں اپنا
مظہر مرزا جان جاناں