نگاہ و دل کے پاس ہو وہ میرا آشنا رہے
ہوس ہے یا کہ عشق ہے یہ کون سوچتا رہے
وہ میرا جب نہ ہو سکا تو پھر یہی سزا رہے
کسی کو پیار جب کروں وہ چھپ کے دیکھتا رہے
اسے منا تو لوں مگر یہ سلسلہ بھی کیا رہے
الگ ہے اس کا ذائقہ کہ وہ کھنچا کھنچا رہے
مشام جاں پہ خوشبوؤں کی جب پھوار ہی نہ ہو
ہزار بات بات میں وہ پھول ٹانکتا رہے
شگفتن جمال کو حجاب لمس چاہئے
فصیل شب کی اوٹ میں چراغ یہ جلا رہے
نہ اتنی دور جائیے کہ لوگ پوچھنے لگیں
کسی کو دل کی کیا خبر یہ ہاتھ تو ملا رہے
غزل
نگاہ و دل کے پاس ہو وہ میرا آشنا رہے
مظہر امام

