EN हिंदी
ہم نے کی ہے توبہ اور دھومیں مچاتی ہے بہار | شیح شیری
humne ki hai tauba aur dhuMein machati hai bahaar

غزل

ہم نے کی ہے توبہ اور دھومیں مچاتی ہے بہار

مظہر مرزا جان جاناں

;

ہم نے کی ہے توبہ اور دھومیں مچاتی ہے بہار
ہائے بس چلتا نہیں کیا مفت جاتی ہے بہار

لالۂ گل نے ہماری خاک پر ڈالا ہے شور
کیا قیامت ہے موؤں کو بھی ستاتی ہے بہار

شاخ گل ہلتی نہیں یہ بلبلوں کو باغ میں
ہاتھ اپنے کے اشارے سے بلاتی ہے بہار

ہم گرفتاروں کو اب کیا کام ہے گلشن سے لیک
جی نکل جاتا ہے جب سنتے ہیں آتی ہے بہار

نرگس و گل کی کھلی جاتی ہیں کلیاں دیکھو سب
پھر بھی انہی خوابیدہ فتنوں کو جگاتی ہے بہار