ہم نے کی ہے توبہ اور دھومیں مچاتی ہے بہار
ہائے بس چلتا نہیں کیا مفت جاتی ہے بہار
لالۂ گل نے ہماری خاک پر ڈالا ہے شور
کیا قیامت ہے موؤں کو بھی ستاتی ہے بہار
شاخ گل ہلتی نہیں یہ بلبلوں کو باغ میں
ہاتھ اپنے کے اشارے سے بلاتی ہے بہار
ہم گرفتاروں کو اب کیا کام ہے گلشن سے لیک
جی نکل جاتا ہے جب سنتے ہیں آتی ہے بہار
نرگس و گل کی کھلی جاتی ہیں کلیاں دیکھو سب
پھر بھی انہی خوابیدہ فتنوں کو جگاتی ہے بہار
غزل
ہم نے کی ہے توبہ اور دھومیں مچاتی ہے بہار
مظہر مرزا جان جاناں