EN हिंदी
نہ تو ملنے کے اب قابل رہا ہے | شیح شیری
na tu milne ke ab qabil raha hai

غزل

نہ تو ملنے کے اب قابل رہا ہے

مظہر مرزا جان جاناں

;

نہ تو ملنے کے اب قابل رہا ہے
نہ مج کو وہ دماغ و دل رہا ہے

یہ دل کب عشق کے قابل رہا ہے
کہاں اس کو دماغ و دل رہا ہے

خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو
یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے

نہیں آتا اسے تکیہ پہ آرام
یہ سر پاؤں سے تیرے ہل رہا ہے