جو مل گئے تو تونگر نہ مل سکے تو گدا
ہم اپنی ذات کے اندر چھپا دیے گئے ہیں
میر احمد نوید
خود سے گزرے تو قیامت سے گزر جائیں گے ہم
یعنی ہر حال کی حالت سے گزر جائیں گے ہم
میر احمد نوید
کچھ اس طرح سے کہا مجھ سے بیٹھنے کے لیے
کہ جیسے بزم سے اس نے اٹھا دیا ہے مجھے
میر احمد نوید
میں اپنے ہجر میں تھا مبتلا ازل سے مگر
ترے وصال نے مجھ سے ملا دیا ہے مجھے
میر احمد نوید
میں کہیں آؤں میں کہیں جاؤں
وقت جیسے رکا سا رہتا ہے
میر احمد نوید
ممکن نہیں ہے شاید دونوں کا ساتھ رہنا
تیری خبر جب آئی اپنی خبر گئی ہے
میر احمد نوید
پیش زمیں رہوں کہ پس آسماں رہوں
رہتا ہوں اپنے ساتھ میں چاہے جہاں رہوں
میر احمد نوید

