EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

سرد ٹھٹھری ہوئی لپٹی ہوئی صرصر کی طرح
زندگی مجھ سے ملی پچھلے دسمبر کی طرح

منصور آفاق




ترے بھلانے میں میرا قصور اتنا ہے
کہ پڑ گئے تھے مجھے کام کچھ زیادہ ہی

منصور آفاق




تجھ ایسی نرم گرم کئی لڑکیوں کے ساتھ
میں نے شب فراق ڈبو دی شراب میں

منصور آفاق




وہ ترا اونچی حویلی کے قفس میں رہنا
یاد آئے تو پرندوں کو رہا کرتا ہوں

منصور آفاق




جو کبھی دیوار پہ لٹکائی تھی
اب ترے کمرے کی زینت بھی نہیں

منصور خوشتر




کسی سے سرگزشت غم بیاں کرتا ہوں جب اپنی
کہانی وہ سراسر آپ کی معلوم ہوتی ہے

منصور خوشتر




ناز و انداز کی قیمت ہے ترے میرے سبب
کس کی محفل میں بھلا اور غضب ڈھاؤ گے

منصور خوشتر