سب کے سو جانے پہ افلاک سے کیا کہتا ہے
رات کو ایک پرندے کی صدا سنتا ہوں
منموہن تلخ
شکایت اور تو کچھ بھی نہیں ان آنکھوں سے
ذرا سی بات پہ پانی بہت برستا ہے
منموہن تلخ
یہ اب گھروں میں نہ پانی نہ دھوپ ہے نہ جگہ
زمیں نے تلخؔ یہ شہروں کو بد دعا دی ہے
منموہن تلخ
یہ دل اب مجھ سے تھوڑی دیر سستانے کو کہتا ہے
اور آنکھیں موند کر ہر بات دہرانے کو کہتا ہے
منموہن تلخ
یہ تلخؔ کیا کیا ہے خود سے بھی گئے تم تو
مرنا ہی کسی پر تھا تم خود پہ مرے ہوتے
منموہن تلخ
رات بے سدھ ہو کے سوئے گی یہاں
اس لئے سورج نے پردہ کر لیا
منوج اظہر
یوں چار دن کی بہاروں کے قرض اتارے گئے
تمہارے بعد کے موسم فقط گزارے گئے
منوج اظہر

