EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

سب کے سو جانے پہ افلاک سے کیا کہتا ہے
رات کو ایک پرندے کی صدا سنتا ہوں

منموہن تلخ




شکایت اور تو کچھ بھی نہیں ان آنکھوں سے
ذرا سی بات پہ پانی بہت برستا ہے

منموہن تلخ




یہ اب گھروں میں نہ پانی نہ دھوپ ہے نہ جگہ
زمیں نے تلخؔ یہ شہروں کو بد دعا دی ہے

منموہن تلخ




یہ دل اب مجھ سے تھوڑی دیر سستانے کو کہتا ہے
اور آنکھیں موند کر ہر بات دہرانے کو کہتا ہے

منموہن تلخ




یہ تلخؔ کیا کیا ہے خود سے بھی گئے تم تو
مرنا ہی کسی پر تھا تم خود پہ مرے ہوتے

منموہن تلخ




رات بے سدھ ہو کے سوئے گی یہاں
اس لئے سورج نے پردہ کر لیا

منوج اظہر




یوں چار دن کی بہاروں کے قرض اتارے گئے
تمہارے بعد کے موسم فقط گزارے گئے

منوج اظہر