سرد ٹھٹھری ہوئی لپٹی ہوئی صرصر کی طرح
زندگی مجھ سے ملی پچھلے دسمبر کی طرح
کس طرح دیکھنا ممکن تھا کسی اور طرف
میں نے دیکھا ہے تجھے آخری منظر کی طرح
ہاتھ رکھ لمس بھری تیز نظر کے آگے
چیرتی جاتی ہے سینہ مرا خنجر کی طرح
بارشیں اس کا لب و لہجہ پہن لیتی تھیں
شور کرتی تھی وہ برسات میں جھانجھر کی طرح
کچی مٹی کی مہک اوڑھ کے اتراتی تھی
میں اسے دیکھتا رہتا تھا سمندر کی طرح
پلو گرتا ہوا ساڑی کا اٹھا کر منصورؔ
چلتی ہے چھلکی ہوئی دودھ کی گاگر کی طرح
غزل
سرد ٹھٹھری ہوئی لپٹی ہوئی صرصر کی طرح
منصور آفاق