EN हिंदी
در کوئی جنت پندار کا وا کرتا ہوں | شیح شیری
dar koi jannat-e-pindar ka wa karta hun

غزل

در کوئی جنت پندار کا وا کرتا ہوں

منصور آفاق

;

در کوئی جنت پندار کا وا کرتا ہوں
آئینہ دیکھ کے میں حمد و ثنا کرتا ہوں

رات اور دن کے کناروں کے تعلق کی قسم
وقت ملتے ہیں تو ملنے کی دعا کرتا ہوں

وہ ترا اونچی حویلی کے قفس میں رہنا
یاد آئے تو پرندوں کو رہا کرتا ہوں

ایک لڑکی کے تعاقب میں کئی برسوں سے
نت نئی ذات کے ہوٹل میں رہا کرتا ہوں

پوچھتا رہتا ہوں موجوں سے گہر کی خبریں
اشک گم گشتہ کا دریا سے پتہ کرتا ہوں

مجھ سے منصورؔ کسی نے تو یہ پوچھا ہوتا
ننگے پاؤں میں ترے شہر میں کیا کرتا ہوں