EN हिंदी
سرکا دیا نقاب کو کھڑکی نے خواب میں | شیح شیری
sarka diya naqab ko khiDki ne KHwab mein

غزل

سرکا دیا نقاب کو کھڑکی نے خواب میں

منصور آفاق

;

سرکا دیا نقاب کو کھڑکی نے خواب میں
سورج دکھائی دے شب خانہ خراب میں

تجھ ایسی نرم گرم کئی لڑکیوں کے ساتھ
میں نے شب فراق ڈبو دی شراب میں

آنکھیں خیال خواب جوانی یقین سانس
کیا کیا نکل رہا ہے کسی کے حساب میں

قیدی بنا لیا ہے کسی حور نے مجھے
یوں ہی میں پھر رہا تھا دیار ثواب میں

مایوس آسماں ابھی ہم سے نہیں ہوا
امید کا نزول ہے کھلتے گلاب میں

دیکھوں ورق ورق پہ خد و خال نور کے
سورج صفت رسول ہیں صبح کتاب میں

سیسہ بھری سماعتیں بے شک مگر بڑا
شور برہنگی ہے سکوت نقاب میں