چراغ ہو گیا بد نام کچھ زیادہ ہی
کہ جل رہا تھا سر بام کچھ زیادہ ہی
ترے بھلانے میں میرا قصور اتنا ہے
کہ پڑ گئے تھے مجھے کام کچھ زیادہ ہی
میں کتنے ہاتھ سے گزرا یہاں تک آتے ہوئے
مجھے کیا گیا نیلام کچھ زیادہ ہی
ملال تیری جدائی کا بے پنہ لیکن
فسردہ ہے یہ مری شام کچھ زیادہ ہی
تمام عمر کی آوارگی بجا لیکن
لگا ہے عشق کا الزام کچھ زیادہ ہی
بس ایک رات سے کیسے تھکن اترتی ہے
بدن کو چاہئے آرام کچھ زیادہ ہی
سنبھال اپنی بہکتی ہوئی زباں منصورؔ
تو لے رہا ہے کوئی نام کچھ زیادہ ہی
غزل
چراغ ہو گیا بد نام کچھ زیادہ ہی
منصور آفاق