کچھ اور نظر آتے خود سے جو ڈرے ہوتے
سائے میں کہیں ہوتے کچھ زخم بھرے ہوتے
دنیا کا جو بس چلتا رکھ دیتی کچل کر ہی
پھر یہ بھی حقیقت ہے ہم کتنا پرے ہوتے
لگتیں نہ کسی کو بھی باتیں یہ بری اپنی
دو چار جو ہم ایسے کچھ اور کھرے ہوتے
اندر سے سبھی شاید آواز کے گھائل ہیں
آواز نہ دیتے تو کیوں زخم ہرے ہوتے
ہو کوئی بھی ہم سب کا منہ بند نہ کر دیتے
الزام اگر سر پہ خود ہی نہ دھرے ہوتے
کچھ دیکھ کے جی اپنا ہوتا جو ذرا بھی خوش
پھر ہاتھ ان آنکھوں پہ ایسے نہ دھرے ہوتے
کچھ جاننے کی دھن ہے کیا جاننا ہے لیکن
معلوم یہ ہوتا تو خود سے نہ پرے ہوتے
یہ تلخؔ کیا کیا ہے خود سے بھی گئے تم تو
مرنا ہی کسی پر تھا تم خود پہ مرے ہوتے
غزل
کچھ اور نظر آتے خود سے جو ڈرے ہوتے
منموہن تلخ