EN हिंदी
رات سائے سے بھی جھگڑا کر لیا | شیح شیری
raat sae se bhi jhagDa kar liya

غزل

رات سائے سے بھی جھگڑا کر لیا

منوج اظہر

;

رات سائے سے بھی جھگڑا کر لیا
خود کو بالکل ہی اکیلا کر لیا

بھولنے کی ضد میں یہ کیا کر لیا
رنگ ہی یادوں کا پکا کر لیا

وہ بھی ہم سے اجنبی بن کر ملا
ہم نے بھی لہجے کو سادہ کر لیا

ہاتھ ملتے رہ گئے سارے بھنور
اور کشتی نے کنارا کر لیا

رات بے سدھ ہو کے سوئے گی یہاں
اس لئے سورج نے پردہ کر لیا