رات سائے سے بھی جھگڑا کر لیا
خود کو بالکل ہی اکیلا کر لیا
بھولنے کی ضد میں یہ کیا کر لیا
رنگ ہی یادوں کا پکا کر لیا
وہ بھی ہم سے اجنبی بن کر ملا
ہم نے بھی لہجے کو سادہ کر لیا
ہاتھ ملتے رہ گئے سارے بھنور
اور کشتی نے کنارا کر لیا
رات بے سدھ ہو کے سوئے گی یہاں
اس لئے سورج نے پردہ کر لیا
غزل
رات سائے سے بھی جھگڑا کر لیا
منوج اظہر