یہ شہر شہر سر عام اب منادی ہے
نہ وہ رہے گا ملاقات کا جو عادی ہے
زمین دی ہے کھلی دھوپ دی ہوا دی ہے
بہ نام زندگی کیسی کڑی سزا دی ہے
میں اپنے آپ سے کیا پوچھتا ہوں رہ رہ کر
یہ کیوں لگے کہ کسی نے مجھے صدا دی ہے
ترا ہی روپ کوئی تھا یہاں جب آیا تھا
یہ دیکھ وقت نے اب شکل کیا بنا دی ہے
دعا سلام تو تھی رسم ربط سے تھی مراد
سو میرے شہر نے یہ رسم ہی اٹھا دی ہے
فقط صدا ہی سنو کیوں نظر نہ آئے گی
کہ اب تو بیچ کی دیوار بھی گرا دی ہے
تمام عمر نہ اس کو کسی نے پہچانا
جو اس کے منہ پہ تھی چادر وہ کیوں ہٹا دی ہے
یہ اب گھروں میں نہ پانی نہ دھوپ ہے نہ جگہ
زمیں نے تلخؔ یہ شہروں کو بد دعا دی ہے
غزل
یہ شہر شہر سر عام اب منادی ہے
منموہن تلخ