EN हिंदी
یہ شہر شہر سر عام اب منادی ہے | شیح شیری
ye shahr shahr sar-e-am ab munadi hai

غزل

یہ شہر شہر سر عام اب منادی ہے

منموہن تلخ

;

یہ شہر شہر سر عام اب منادی ہے
نہ وہ رہے گا ملاقات کا جو عادی ہے

زمین دی ہے کھلی دھوپ دی ہوا دی ہے
بہ نام زندگی کیسی کڑی سزا دی ہے

میں اپنے آپ سے کیا پوچھتا ہوں رہ رہ کر
یہ کیوں لگے کہ کسی نے مجھے صدا دی ہے

ترا ہی روپ کوئی تھا یہاں جب آیا تھا
یہ دیکھ وقت نے اب شکل کیا بنا دی ہے

دعا سلام تو تھی رسم ربط سے تھی مراد
سو میرے شہر نے یہ رسم ہی اٹھا دی ہے

فقط صدا ہی سنو کیوں نظر نہ آئے گی
کہ اب تو بیچ کی دیوار بھی گرا دی ہے

تمام عمر نہ اس کو کسی نے پہچانا
جو اس کے منہ پہ تھی چادر وہ کیوں ہٹا دی ہے

یہ اب گھروں میں نہ پانی نہ دھوپ ہے نہ جگہ
زمیں نے تلخؔ یہ شہروں کو بد دعا دی ہے