یوں چار دن کی بہاروں کے قرض اتارے گئے
تمہارے بعد کے موسم فقط گزارے گئے
ذرا سی دور تو سیلاب کے سہارے گئے
بھنور میں الجھے تو پھر ہاتھ پانو مارے گئے
صدا کا دیر تلک گونجنا بہت بھایا
پھر ایک نام بیاباں میں ہم پکارے گئے
چھپا چھپا کے جو راتوں نے خواب رکھے تھے
وہ سارے دن کے اجالوں کے ہاتھ مارے گئے
کچھ ایک چہرے مری چشم تر میں تیرتے ہیں
کچھ اک سفینے ابھی تک نہ پار اتارے گئے
غزل
یوں چار دن کی بہاروں کے قرض اتارے گئے
منوج اظہر