زمانہ ہے کہ مجھے روز شام ڈستا ہے
مگر یہ دل ہے کہ پہلے سے اور ہنستا ہے
تو یہ بتا انہیں کس نے بنا دیا ایسا
کہ تیرے سامنے ہر کوئی دست بستہ ہے
میں اس کو چھوڑ کے اب جاؤں تو کہاں جاؤں
یہی تو ایک میری زندگی کا رستہ ہے
عجیب بات ہے لگتا ہے یوں ہر اک چہرہ
کہ بولنے کے لیے جس طرح ترستا ہے
جو سکھ کا سانس ملے عمر بھر کے بدلے بھی
تو میری مان کہ سودا یہ پھر بھی سستا ہے
سب ایک دوسرے کو اب تو یوں بھی جانتے ہیں
کہ ایک ایک کا اندر سے حال خستہ ہے
شکایت اور تو کچھ بھی نہیں ان آنکھوں سے
ذرا سی بات پہ پانی بہت برستا ہے
کراہتا بھی ہے ہر آن جو بھی زندہ ہے
اور اپنے گرد شکنجہ بھی خود ہی کستا ہے
ہمارا کل کوئی پاتال میں رکھ آیا ہے
سمندروں میں سے کہتے ہیں کوئی رستہ ہے
کسی طرح بھی تو سمجھا سکے نہ ہم اس کو
زمانے سے یہ کہو خود پہ تلخؔ ہنستا ہے
غزل
زمانہ ہے کہ مجھے روز شام ڈستا ہے
منموہن تلخ