EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

سامنے اس یار کے بھی اور سر دربار بھی
ایک یہ دل تھا جسے ہر بار خوں کرنا پڑا

ماجد صدیقی




تہمت سی لیے پھرتے ہیں صدیوں سے سر اپنے
رسوا ہے بہت نام یہاں اہل ہنر کا

ماجد صدیقی




یہ سفر اپنا کہیں جانب محشر ہی نہ ہو
ہم لیے کس کا جنازہ ہیں یہ گھر سے نکلے

ماجد صدیقی




اندھے موڑ کو جو بھی کاٹے آہستہ گزرے
سائکلیں ٹکرا جاتی ہیں اکثر موٹر سے

ماجد الباقری




بات کرنا ہے کرو سامنے اتراؤ نہیں
جو نہیں جانتے اس بات کو سمجھاؤ نہیں

ماجد الباقری




بیس برس سے اک تارے پر من کی جوت جگاتا ہوں
دیوالی کی رات کو تو بھی کوئی دیا جلایا کر

ماجد الباقری




ہونٹ کی سرخی جھانک اٹھتی ہے شیشے کے پیمانوں سے
مٹی کے برتن میں پانی پی کر پیاس بجھایا کر

ماجد الباقری