سامنے اس یار کے بھی اور سر دربار بھی
ایک یہ دل تھا جسے ہر بار خوں کرنا پڑا
ماجد صدیقی
تہمت سی لیے پھرتے ہیں صدیوں سے سر اپنے
رسوا ہے بہت نام یہاں اہل ہنر کا
ماجد صدیقی
یہ سفر اپنا کہیں جانب محشر ہی نہ ہو
ہم لیے کس کا جنازہ ہیں یہ گھر سے نکلے
ماجد صدیقی
اندھے موڑ کو جو بھی کاٹے آہستہ گزرے
سائکلیں ٹکرا جاتی ہیں اکثر موٹر سے
ماجد الباقری
بات کرنا ہے کرو سامنے اتراؤ نہیں
جو نہیں جانتے اس بات کو سمجھاؤ نہیں
ماجد الباقری
بیس برس سے اک تارے پر من کی جوت جگاتا ہوں
دیوالی کی رات کو تو بھی کوئی دیا جلایا کر
ماجد الباقری
ہونٹ کی سرخی جھانک اٹھتی ہے شیشے کے پیمانوں سے
مٹی کے برتن میں پانی پی کر پیاس بجھایا کر
ماجد الباقری

