خس و خاشاک بھی کب کے ہیں بھنور سے نکلے
اک ہمیں ہیں کہ نہیں نرغۂ شر سے نکلے
زخم وہ کھل بھی تو سکتا ہے سلایا ہے جسے
ہم بھلا کب ہیں حد خوف و خطر سے نکلے
یہ سفر اپنا کہیں جانب محشر ہی نہ ہو
ہم لیے کس کا جنازہ ہیں یہ گھر سے نکلے
کل جو ٹپکے تھے سر کوچۂ کوتہ نظراں
اشک اب کے بھی وہی دیدۂ تر سے نکلے
عکس کچھ اپنا ہی آئینۂ حالات میں تھا
سٹپٹائے ہوئے جب دام سفر سے نکلے
کون کہہ سکتا ہے ماجدؔ کہ بایں کم نگہی
حشر کیا ساعت آئندہ کے در سے نکلے

غزل
خس و خاشاک بھی کب کے ہیں بھنور سے نکلے
ماجد صدیقی