EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

انسان میں کیا بھرا ہوا ہے
ہونٹوں سے دماغ تک سلے ہیں

ماجد الباقری




لوہے اور پتھر کی ساری تصویریں مٹ جائیں گی
کاغذ کے پردے پر ہم نے سب کے روپ جمائے ہیں

ماجد الباقری




مجھی سے پوچھ رہا تھا مرا پتا کوئی
بتوں کے شہر میں موجود تھا خدا کوئی

ماجد الباقری




قریب دیکھ کے اس کو یہ بات کس سے کہوں
خیال دل میں جو آیا گناہ جیسا تھا

ماجد الباقری




سوکھے پتے سب اکٹھے ہو گئے ہیں
راستے میں ایک دیوار آ گئی ہے

ماجد الباقری




آزادی کی دھومیں ہیں شہرے ہیں ترقی کے
ہر گام ہے پسپائی ہر وضع غلامانہ

مجنوں گورکھپوری




حنائی ہاتھ سے آنچل سنبھالے
یہ شرماتا ہوا کون آ رہا ہے

مجنوں گورکھپوری