EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

نگہ اٹھی تو زمانے کے سامنے ترا روپ
پلک جھکی تو مرے دل کے روبرو ترا غم

مجید امجد




شاید اک بھولی تمنا مٹتے مٹتے جی اٹھے
اور بھی اس جلوہ زار رنگ و بو میں گھومیے

مجید امجد




سپردگی میں بھی اک رمز خود نگہ داری
وہ میرے دل سے مرے واسطے نہیں گزرے

مجید امجد




ترے خیال کے پہلو سے اٹھ کے جب دیکھا
مہک رہا تھا زمانے میں چار سو ترا غم

مجید امجد




تری یاد میں جلسہ تعزیت
تجھے بھول جانے کا آغاز تھا

مجید امجد




یہ کیا طلسم ہے یہ کس کی یاسمیں بانہیں
چھڑک گئی ہیں جہاں در جہاں گلاب کے پھول

مجید امجد




زندگی کی راحتیں ملتی نہیں ملتی نہیں
زندگی کا زہر پی کر جستجو میں گھومیے

مجید امجد