بچا لیا مجھے طوفاں کی موج نے ورنہ
کنارے والے سفینہ مرا ڈبو دیتے
مجروح سلطانپوری
بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لیے
ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے
مجروح سلطانپوری
بے تیشہ نظر نہ چلو راہ رفتگاں
ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح
مجروح سلطانپوری
دست پر خوں کو کف دست نگاراں سمجھے
قتل گہہ تھی جسے ہم محفل یاراں سمجھے
مجروح سلطانپوری
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
مجروح سلطانپوری
دل کی تمنا تھی مستی میں منزل سے بھی دور نکلتے
اپنا بھی کوئی ساتھی ہوتا ہم بھی بہکتے چلتے چلتے
مجروح سلطانپوری
فریب ساقئ محفل نہ پوچھئے مجروحؔ
شراب ایک ہے بدلے ہوئے ہیں پیمانے
مجروح سلطانپوری

