دھوکا تھا ہر اک برگ پہ ٹوٹے ہوئے پر کا
وا جس کے لیے رہ گیا دامان شرر کا
میں اشک ہوں میں اوس کا قطرہ ہوں شرر ہوں
انداز بہم ہے مجھے پانی کے سفر کا
کروٹ سی بدلتا ہے اندھیرا تو اسے بھی
دے دیتے ہیں ہم سادہ منش نام سحر کا
تہمت سی لیے پھرتے ہیں صدیوں سے سر اپنے
رسوا ہے بہت نام یہاں اہل ہنر کا
قائم نہ رہا خاک سے جب رشتۂ جاں تو
بس دھول پتہ پوچھنے آتی تھی شجر کا
جو شاہ کے کاندھوں کی وجاہت کا سبب ہے
دیکھو تو بھلا تاج ہے کس کاسۂ سر کا
اشکوں سے تپاں ہے کبھی آہوں سے خنک ہے
اک عمر سے ماجدؔ یہی موسم ہے نگر کا

غزل
دھوکا تھا ہر اک برگ پہ ٹوٹے ہوئے پر کا
ماجد صدیقی