EN हिंदी
بات کرنا ہے کرو سامنے اتراؤ نہیں | شیح شیری
baat karna hai karo samne itrao nahin

غزل

بات کرنا ہے کرو سامنے اتراؤ نہیں

ماجد الباقری

;

بات کرنا ہے کرو سامنے اتراؤ نہیں
جو نہیں جانتے اس بات کو سمجھاؤ نہیں

میں وہ سمجھا ہوں بیاں تم سے جو ہوگا نہ کبھی
بے ضرر ہوں مرے اس کشف سے گھبراؤ نہیں

اس ترنم میں تو مفہوم نہیں ہے کوئی
شعر کہتے ہو تو پڑھ ڈالو مگر گاؤ نہیں

بند آنکھوں میں بکھر جاتے ہیں بجتے ہوئے رنگ
مجھ سے اندھے کو کوئی آئینہ دکھلاؤ نہیں

میں اکائی کی طرح سب میں سمایا ماجدؔ
بات بڑھ جائے گی اعداد کو گنواؤ نہیں