سپنے کی وادی کو تج کر روپ نگر میں آیا کر
دن کے پھیلے کاغذ پر اپنی تصویر بنایا کر
دھوپ کڑی ہے ننگا سر ہی صحراؤں سے گزروں گا
اپنے دوپٹے کے پلو کا میرے سر پر سایا کر
ایک سمندر کی موجوں کو ایک بھنور میں رہنے دے
نیلی آنکھوں کے ساگر کو ایسے مت چھلکایا کر
ہونٹ کی سرخی جھانک اٹھتی ہے شیشے کے پیمانوں سے
مٹی کے برتن میں پانی پی کر پیاس بجھایا کر
دل کی آوازوں کا گنبد آبادی میں پھٹتا ہے
دور کسی خاموش کنویں میں منہ لٹکا کر گایا کر
بیس برس سے اک تارے پر من کی جوت جگاتا ہوں
دیوالی کی رات کو تو بھی کوئی دیا جلایا کر
ماجدؔ نے بیراگ لیا ہے کوئی ایسی بات نہیں
ادھر ادھر کی باتیں کر کے لوگوں کو سمجھایا کر

غزل
سپنے کی وادی کو تج کر روپ نگر میں آیا کر
ماجد الباقری