EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اٹھا صراحی یہ شیشہ وہ جام لے ساقی
پھر اس کے بعد خدا کا بھی نام لے ساقی

کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر




زندگی موت بن گئی ہوتی جان سے ہم گزر گئے ہوتے
اتنے عشرت زدہ ہیں ہم کہ اگر غم نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے

کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر




اے مرے پاؤں کے چھالو مرے ہمراہ رہو
امتحاں سخت ہے تم چھوڑ کے جاتے کیوں ہو

لئیق عاجز




دشمنوں کو دوست بھائی کو ستم گر کہہ دیا
لوگ کیوں برہم ہیں کیا شیشے کو پتھر کہہ دیا

لئیق عاجز




کھیتیاں چھالوں کی ہوتی تھیں لہو اگتے تھے
کتنا زرخیز تھا وہ در بدری کا موسم

لئیق عاجز




کرنوں کو وہ بازار میں بیچ آیا ہے
شاید کہ کئی دن سے تھا بھوکا سورج

لئیق عاجز




میں چاہتا ہوں تعلق کے درمیاں پردہ
وہ چاہتا ہے مرے حال پر نظر کرنا

لئیق عاجز