اٹھا صراحی یہ شیشہ وہ جام لے ساقی
پھر اس کے بعد خدا کا بھی نام لے ساقی
کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر
زندگی موت بن گئی ہوتی جان سے ہم گزر گئے ہوتے
اتنے عشرت زدہ ہیں ہم کہ اگر غم نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے
کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر
اے مرے پاؤں کے چھالو مرے ہمراہ رہو
امتحاں سخت ہے تم چھوڑ کے جاتے کیوں ہو
لئیق عاجز
دشمنوں کو دوست بھائی کو ستم گر کہہ دیا
لوگ کیوں برہم ہیں کیا شیشے کو پتھر کہہ دیا
لئیق عاجز
کھیتیاں چھالوں کی ہوتی تھیں لہو اگتے تھے
کتنا زرخیز تھا وہ در بدری کا موسم
لئیق عاجز
کرنوں کو وہ بازار میں بیچ آیا ہے
شاید کہ کئی دن سے تھا بھوکا سورج
لئیق عاجز
میں چاہتا ہوں تعلق کے درمیاں پردہ
وہ چاہتا ہے مرے حال پر نظر کرنا
لئیق عاجز

