طنز کے تیر مری سمت چلاتے کیوں ہو
تم اگر دوست ہو تو دل کو دکھاتے کیوں ہو
دیکھ لے یہ بھی زمانہ کہ ہو تم کتنے امیر
اپنی پلکوں کے نگینے کو چھپاتے کیوں ہو
اے مرے پاؤں کے چھالو مرے ہمراہ رہو
امتحاں سخت ہے تم چھوڑ کے جاتے کیوں ہو
تشنگی سے مری برسوں کی شناسائی ہے
بیچ میں نہر کی دیوار اٹھاتے کیوں ہو
میری تاریک شبوں میں ہے اجالا ان سے
چاند سے زخموں پہ مرہم یہ لگاتے کیوں ہو
اس سے جب عہد وفا کر ہی لیا ہے عاجزؔ
بے وفا کہہ کے اسے اشک بہاتے کیوں ہو

غزل
طنز کے تیر مری سمت چلاتے کیوں ہو
لئیق عاجز