EN हिंदी
بادشاہی ہو کہ دریوزہ گری کا موسم | شیح شیری
baadshahi ho ki daryuza-gari ka mausam

غزل

بادشاہی ہو کہ دریوزہ گری کا موسم

لئیق عاجز

;

بادشاہی ہو کہ دریوزہ گری کا موسم
بھولتا ہی نہیں وہ ہم سفری کا موسم

کھیتیاں چھالوں کی ہوتی تھیں لہو اگتے تھے
کتنا زرخیز تھا وہ در بدری کا موسم

حرز جاں ٹھہرے جو صحرا میں ٹھکانہ مل جائے
بستیوں میں تو ہے آشفتہ سری کا موسم

آؤ زخموں سے پھر اک بار لپٹ کر رو لیں
ورنہ آنے کو ہے اب بخیہ گری کا موسم

روز اول سے ہے چھایا ہوا مجھ پر اب تک
کرچیاں ہونے کا شق ابشری کا موسم

اب کبھی لوٹ کر آئے گا نہ شاید عاجزؔ
ڈوب کر پینے کا دامن کی تری کا موسم