پھر مری یاد آ رہی ہوگی
پھر وہ دیپک بجھا رہی ہوگی
کمار وشواس
اسی کی طرح مجھے سارا زمانا چاہے
وہ مرا ہونے سے زیادہ مجھے پانا چاہے
کمار وشواس
اس نے پھینکا مجھ پہ پتھر اور میں پانی کی طرح
اور اونچا اور اونچا اور اونچا ہو گیا
کنور بے چین
اپنی خواہش میں جو بس گئے ہیں وہ دیوار و در چھوڑ دیں
دھوپ آنکھوں میں چبھنے لگی ہے تو کیا ہم سفر چھوڑ دیں
کنور اعجاز راجا
غم سود و زیاں سے بے نیازانہ نکلتا ہے
بڑی فرزانگی سے تیرا دیوانہ نکلتا ہے
کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر
ہر لمحہ مانگتے ہیں دعا دید یار کی
یاد بتاں بھی دل میں ہے یاد خدا کے ساتھ
کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر
ان شوخ حسینوں کی نرالی ہے ادا بھی
بت ہو کے سمجھتے ہیں کہ جیسے ہیں خدا بھی
کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر

