EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

میری تاریک شبوں میں ہے اجالا ان سے
چاند سے زخموں پہ مرہم یہ لگاتے کیوں ہو

لئیق عاجز




مجھے تو جو بھی ملا ہے عذاب کی صورت
مری حیات ہے اک تشنہ خواب کی صورت

لئیق عاجز




قلم اٹھاؤں کہ بچوں کی زندگی دیکھوں
پڑا ہوا ہے دوراہے پہ اب ہنر میرا

لئیق عاجز




شام ہوتے ہی بجھ گیا عاجزؔ
ایک مفلس کا خواب تھا نہ رہا

لئیق عاجز




ترک جام و سبو نہ کر پائے
اس لیے ہم وضو نہ کر پائے

لئیق عاجز




وہ دھوپ تھی کہ زمیں جل کے راکھ ہو جاتی
برس کے اب کے بڑا کام کر گیا پانی

لئیق عاجز




آئینہ دل کا توڑ کے کہتا ہے سنگ زن
دل تیرا توڑ کر مجھے اچھا نہیں لگا

لئیق اکبر سحاب