EN हिंदी
جب سے مری تقدیر کا ڈوبا سورج | شیح شیری
jab se meri taqdir ka Duba suraj

غزل

جب سے مری تقدیر کا ڈوبا سورج

لئیق عاجز

;

جب سے مری تقدیر کا ڈوبا سورج
اس روز سے اب تک نہیں دیکھا سورج

ڈوبے گا بہت جلد یہ چڑھتا سورج
اس واسطے میں نے نہیں پوجا سورج

جب سے ترے چہرے کی چمک دیکھی ہے
آنکھوں کو مری اک نہیں جچتا سورج

تاریکی سے ہر شخص کو فرصت تو ملی
میرے لیے اب تک نہیں نکلا سورج

کرنوں کو وہ بازار میں بیچ آیا ہے
شاید کہ کئی دن سے تھا بھوکا سورج

تم نے تو کئی لوگوں کو بانٹے لیکن
میں نے تو کبھی ایک نہ پایا سورج

برسوں سے زمانے کو سحر دے نہ سکا
حالات میں کچھ اس طرح الجھا سورج

آیا ہے تصور میں سر شام کوئی
میرے افق ذہن پہ نکلا سورج

عاجزؔ کو پریشان نہیں کر سکتا
افلاک مصائب کا یہ تپتا سورج