EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کیوں آئینہ کہیں اسے پتھر نہ کیوں کہیں
جس آئینے میں عکس نہ اس کا دکھائی دے

کرشن بہاری نور




میں جس کے ہاتھ میں اک پھول دے کے آیا تھا
اسی کے ہاتھ کا پتھر مری تلاش میں ہے

کرشن بہاری نور




سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں

کرشن بہاری نور




تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا یعنی
کبھی دریا نہیں کافی کبھی قطرہ ہے بہت

کرشن بہاری نور




وہ تو غزل سنا کے اکیلا کھڑا رہا
سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے

کرشن بہاری نور




یہی ملنے کا سمے بھی ہے بچھڑنے کا بھی
مجھ کو لگتا ہے بہت اپنے سے ڈر شام کے بعد

کرشن بہاری نور




زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں

کرشن بہاری نور