EN हिंदी
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں | شیح شیری
zindagi se baDi saza hi nahin

غزل

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں

کرشن بہاری نور

;

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں

اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں

زندگی موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی رستہ ہی نہیں

سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں

زندگی اب بتا کہاں جائیں
زہر بازار میں ملا ہی نہیں

جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں

کیسے اوتار کیسے پیغمبر
ایسا لگتا ہے اب خدا ہی نہیں

چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو
آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں

اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے
نورؔ سنسار سے گیا ہی نہیں