ٹھنڈی رات اور ٹھنڈا بستر سکھی ری کانٹے آئے
لوگ کہیں جو دکھ سانجھے ہوں دل ہلکا ہو جائے
کشور ناہید
دھیما دھیما درد سہانا ہم کو اچھا لگتا تھا
دکھتے جی کو اور دکھانا ہم کو اچھا لگتا تھا
کرشن ادیب
پشت پر قاتل کا خنجر سامنے اندھا کنواں
بچ کے جاؤں کس طرف اب راستہ کوئی نہیں
کرشن ادیب
شو کیس میں رکھا ہوا عورت کا جو بت ہے
گونگا ہی سہی پھر بھی دل آویز بہت ہے
کرشن ادیب
ہوس نے توڑ دی برسوں کی سادھنا میری
گناہ کیا ہے یہ جانا مگر گناہ کے بعد
کرشن بہاری نور
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں
کرشن بہاری نور
کیسی عجیب شرط ہے دیدار کے لیے
آنکھیں جو بند ہوں تو وہ جلوہ دکھائی دے
کرشن بہاری نور

