تیز ہو جاتا ہے خوشبو کا سفر شام کے بعد
پھول شہروں میں بھی کھلتے ہیں مگر شام کے بعد
اس سے دریافت نہ کرنا کبھی دن کے حالات
صبح کا بھولا جو لوٹ آیا ہو گھر شام کے بعد
دن ترے ہجر میں کٹ جاتا ہے جیسے تیسے
مجھ سے رہتی ہے خفا میری نظر شام کے بعد
قد سے بڑھ جائے جو سایہ تو برا لگتا ہے
اپنا سورج وہ اٹھا لیتا ہے ہر شام کے بعد
تم نہ کر پاؤگے اندازہ تباہی کا مری
تم نے دیکھا ہی نہیں کوئی شجر شام کے بعد
میرے بارے میں کوئی کچھ بھی کہے سب منظور
مجھ کو رہتی ہی نہیں اپنی خبر شام کے بعد
یہی ملنے کا سمے بھی ہے بچھڑنے کا بھی
مجھ کو لگتا ہے بہت اپنے سے ڈر شام کے بعد
تیرگی ہو تو وجود اس کا چمکتا ہے بہت
ڈھونڈ تو لوں گا اسے نورؔ مگر شام کے بعد
غزل
تیز ہو جاتا ہے خوشبو کا سفر شام کے بعد
کرشن بہاری نور