اک غزل اس پہ لکھوں دل کا تقاضا ہے بہت
ان دنوں خود سے بچھڑ جانے کا دھڑکا ہے بہت
رات ہو دن ہو کہ غفلت ہو کہ بیداری ہو
اس کو دیکھا تو نہیں ہے اسے سوچا ہے بہت
تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا یعنی
کبھی دریا نہیں کافی کبھی قطرہ ہے بہت
مرے ہاتھوں کی لکیروں کے اضافے ہیں گواہ
میں نے پتھر کی طرح خود کو تراشا ہے بہت
کوئی آیا ہے ضرور اور یہاں ٹھہرا بھی ہے
گھر کی دہلیز پہ اے نورؔ اجالا ہے بہت
غزل
اک غزل اس پہ لکھوں دل کا تقاضا ہے بہت
کرشن بہاری نور