یہ جنوں کے معرکے اتنے نہیں آسان بھی
سوچ لینا اس میں جا سکتی ہے تیری جان بھی
روشنی بھی چاہئے تازہ ہوا کے ساتھ ساتھ
کھڑکیاں رکھتا ہوں اپنے گھر میں روشن دان بھی
زندگی میں جو تمہیں خود سے زیادہ تھے عزیز
ان سے ملنے کیا کبھی جاتے ہو قبرستان بھی
گاؤں کی پگڈنڈیاں پکی سڑک سے جا ملیں
تنگ گلیوں میں بدل کر رہ گئے میدان بھی
پاسبان عقل نے تو مجھ کو سمجھایا بہت
تھا مگر پہلو میں میرے دل سا اک نادان بھی
خشک ہیں دریا سمندر کٹ گئے جنگل تمام
ریت سے خالی ہوئے جاتے ہیں ریگستان بھی
میرے لفظوں کے اجالے ماند پڑتے جائیں گے
دھند میں کھو جائے گی اک دن مری پہچان بھی
خود کو کیسے قتل ہونے سے بچاتا میں طلبؔ
رات میرے گھر میں اک قاتل تھا اور مہمان بھی
غزل
یہ جنوں کے معرکے اتنے نہیں آسان بھی
خورشید طلب

