کئی نا آشنا چہرے حجابوں سے نکل آئے
نئے کردار ماضی کی کتابوں سے نکل آئے
ہم اپنے گھر میں بھی اب بے سر و ساماں سے رہتے ہیں
ہمارے سلسلے خانہ خرابوں سے نکل آئے
ہمیں سیراب کرنے کے لیے دریا مچلتے تھے
مگر یہ پیاس کے رشتے سرابوں سے نکل آئے
چلو اچھا ہوا آخر تمہاری نیند بھی ٹوٹی
چلو اچھا ہوا اب تم بھی خوابوں سے نکل آئے
نہ جانے شادؔ ان کا قرض میں کیسے چکاؤں گا
مرے بھی نام کچھ لمحے حسابوں سے نکل آئے
غزل
کئی نا آشنا چہرے حجابوں سے نکل آئے
خوشبیر سنگھ شادؔ