EN हिंदी
اب اندھیروں میں جو ہم خوف زدہ بیٹھے ہیں | شیح شیری
ab andheron mein jo hum KHauf-zada baiThe hain

غزل

اب اندھیروں میں جو ہم خوف زدہ بیٹھے ہیں

خوشبیر سنگھ شادؔ

;

اب اندھیروں میں جو ہم خوف زدہ بیٹھے ہیں
کیا کہیں خود ہی چراغوں کو بجھا بیٹھے ہیں

بس یہی سوچ کے تسکین سی ہو جاتی ہے
اور کچھ لوگ بھی دنیا سے خفا بیٹھے ہیں

دیکھ لے جان وفا آج تری محفل میں
ایک مجرم کی طرح اہل وفا بیٹھے ہیں

ایک ہم ہیں کہ پرستش پہ عقیدہ ہی نہیں
اور کچھ لوگ یہاں بن کے خدا بیٹھے ہیں

شادؔ تو بزم کے آداب سمجھتا ہی نہیں
اور بھی لوگ یہاں تیرے سوا بیٹھے ہیں