اندھیروں میں بھٹکنا ہے پریشانی میں رہنا ہے
میں جگنو ہوں مجھے اک شب کی ویرانی میں رہنا ہے
ابھی کچھ ضبط کا یارا مری آنکھوں میں باقی ہے
ابھی اشکوں کو پلکوں کی نگہبانی میں رہنا ہے
جو منظر رو بہ رو ہے دیکھ لوں اک بار جی بھر کے
پھر اس کے بعد تو آنکھوں کو حیرانی میں رہنا ہے
تری وحشت سمجھتا ہوں اے میری آرزو لیکن
تجھے کچھ دن ابھی اس دل کی ویرانی میں رہنا ہے
تو پھر کیوں لوٹ کر ہر بار آ جاتی ہیں ساحل پر
اگر ان کشتیوں کو عمر بھر پانی میں رہنا ہے
اسی امید پر تو کاٹ لیں یہ مشکلیں ہم نے
اب اس کے بعد تو اے شادؔ آسانی میں رہنا ہے
غزل
اندھیروں میں بھٹکنا ہے پریشانی میں رہنا ہے
خوشبیر سنگھ شادؔ