EN हिंदी
اندھیروں میں بھٹکنا ہے پریشانی میں رہنا ہے | شیح شیری
andheron mein bhaTakna hai pareshani mein rahna hai

غزل

اندھیروں میں بھٹکنا ہے پریشانی میں رہنا ہے

خوشبیر سنگھ شادؔ

;

اندھیروں میں بھٹکنا ہے پریشانی میں رہنا ہے
میں جگنو ہوں مجھے اک شب کی ویرانی میں رہنا ہے

ابھی کچھ ضبط کا یارا مری آنکھوں میں باقی ہے
ابھی اشکوں کو پلکوں کی نگہبانی میں رہنا ہے

جو منظر رو بہ رو ہے دیکھ لوں اک بار جی بھر کے
پھر اس کے بعد تو آنکھوں کو حیرانی میں رہنا ہے

تری وحشت سمجھتا ہوں اے میری آرزو لیکن
تجھے کچھ دن ابھی اس دل کی ویرانی میں رہنا ہے

تو پھر کیوں لوٹ کر ہر بار آ جاتی ہیں ساحل پر
اگر ان کشتیوں کو عمر بھر پانی میں رہنا ہے

اسی امید پر تو کاٹ لیں یہ مشکلیں ہم نے
اب اس کے بعد تو اے شادؔ آسانی میں رہنا ہے