زرد پتوں کا غبار اڑتا ہوا
خیمۂ گل میں شرار اڑتا ہوا
بہہ چکی گدرائے جسموں کی شراب
لمس اول کا خمار اڑتا ہوا
سب نے دیکھا اور سب خاموش تھے
ایک صوفی کا مزار اڑتا ہوا
لگ چکی ہے سبز دریاؤں میں آگ
بھاپ بن کر آبشار اڑتا ہوا
مطمئن دیوار پر ہے چھپکلی
خود ہی آئے گا شکار اڑتا ہوا
اس نے آ کر ہاتھ ماتھے پر رکھا
اور منٹوں میں بخار اڑتا ہوا
غزل
زرد پتوں کا غبار اڑتا ہوا
خورشید طلب