بڑا عجیب تھا اس کا وداع ہونا بھی
نہ ہو سکا مرا اس سے لپٹ کے رونا بھی
فصیلیں چھونے لگی ہیں اب آسمانوں کو
عجب ہے ایک دریچے کا بند ہونا بھی
نہ کوئی خواب ہے آنکھوں میں اب نہ بیداری
ترے سبب تھا مرا جاگنا بھی سونا بھی
ترے فقیر کو اتنی سی جا بھی کافی ہے
جو تیرے دل میں نکل آئے ایک کونا بھی
یہ کم نہیں جو میسر ہے زندگی سے مجھے
کبھی کبھار کا ہنسنا اداس ہونا بھی
ترا گزارنا ہموار راستوں سے ہمیں
ہمارے پاؤں میں کانٹے کبھی چبھونا بھی
چلا گیا کوئی آنکھوں میں گرد اڑاتا ہوا
نہ کام آیا کوئی ٹوٹکا نہ ٹونا بھی
طلبؔ بڑی ہی اذیت کا کام ہوتا ہے
بکھرتے ٹوٹتے رشتوں کا بوجھ ڈھونا بھی
غزل
بڑا عجیب تھا اس کا وداع ہونا بھی
خورشید طلب