EN हिंदी
سبب اس کی پریشانی کا میں ہوں | شیح شیری
sabab uski pareshani ka main hun

غزل

سبب اس کی پریشانی کا میں ہوں

خورشید طلب

;

سبب اس کی پریشانی کا میں ہوں
نمک کی فصل وہ پانی کا میں ہوں

یہ جنگل مجھ کو راس آنا نہیں ہے
پرندہ دشت امکانی کا میں ہوں

مری مشکل مری مشکل نہیں ہے
وسیلہ تیری آسانی کا میں ہوں

مجھے دنیا لٹا دے گی کوئی دن
اثاثہ عالم فانی کا میں ہوں

ابھی ساحل مرا رستہ نہ دیکھے
ابھی دریا کی طغیانی کا میں ہوں

وہیں مجھ کو سپرد خاک کرنا
کہ جس خاک بیانی کا میں ہوں

مرے ہونے کا کچھ مطلب تو ہوگا
تو کیا بے کار بے معنی کا میں ہوں

فقیرانہ طبیعت کا ہوں ورنہ
طلبؔ حق دار سلطانی کا میں ہوں