کوئی اچھی سی غزل کانوں میں میرے گھول دے
قید تنہائی میں ہوں میں مجھ کو آ کر کھول دے
یہ تناؤ جسم کا بڑھنے نہیں دے گا تجھے
چست پیراہن میں تو اپنے ذرا سا جھول دے
ایک لڑکی جل رہی ہے چلچلاتی دھوپ میں
کوئی بادل آ کے اس پر اپنی چھتری کھول دے
راہ تکتے جسم کی مجلس میں صدیاں ہو گئیں
جھانک کر اندھے کنوئیں میں اب تو کوئی بول دے
میں خریدار وفا ہوں تو گرفتار وفا
میری بانہوں میں تھرکتا جسم اپنا تول دے
دیر تک بنجارہ کل کوئی صدا دیتا رہا
کون ہے بازار میں جو جنس دل کا مول دے
جانے کب سے فیصلہ قسمت کا سننے کے لئے
منتظر بیٹھا ہوں میں تو اپنی مٹھی کھول دے
شعر اچھے ہوں تو بے گائے بھی مل جاتی ہے داد
تو خدارا لحن کے ہاتھوں میں مت کشکول دے

غزل
کوئی اچھی سی غزل کانوں میں میرے گھول دے
آفتاب شمسی