کر بھی لوں اگر خواب کی تعبیر کوئی اور
سینے میں اتر جائے گی شمشیر کوئی اور
اب اشک ترے روک نہیں پائیں گے مجھ کو
اب ڈال مرے پاؤں میں زنجیر کوئی اور
میں شب سے نہیں دن کی ہلاکت سے ڈرا ہوں
اب میرے لیے بھیجنا تنویر کوئی اور
اب تیری محبت سے بھی کچھ کام نہ ہوگا
اب ڈھونڈ مرے واسطے اکسیر کوئی اور
اے میرے مصور نہیں یہ میں تو نہیں ہوں
یہ تو نے بنا ڈالی ہے تصویر کوئی اور
اس بار مجھے عشق کا آزار نہیں ہے
اس بار محبت میں ہے دلگیر کوئی اور
غزل
کر بھی لوں اگر خواب کی تعبیر کوئی اور
افضال فردوس