EN हिंदी
تلاش قافیہ میں عمر سب گزاری ہے | شیح شیری
talash-e-qafiya mein umr sab guzari hai

غزل

تلاش قافیہ میں عمر سب گزاری ہے

آفتاب شمسی

;

تلاش قافیہ میں عمر سب گزاری ہے
تو پختگی جسے کہتا ہے خامکاری ہے

سبھی ہیں اپنے مگر اجنبی سے لگتے ہیں
یہ زندگی ہے کہ ہوٹل میں شب گزاری ہے

وہ سارے دن رہا دفتر میں اور رات ڈھلے
نظر کے کاسے میں اک خواب کا بھکاری ہے

کچھ ایسا بچھڑا ہوں خود سے کہ مل نہیں سکتا
اگرچہ کام بہ ظاہر یہ اختیاری ہے

نہ جانے کیوں مری آنکھوں میں چبھ رہی ہے آج
سفید ساری پہ جو یہ سیاہ دھاری ہے

مجھے کلاس میں اکثر یہ قول یاد آیا
وہ کامیاب معلم ہے جو مداری ہے