ٹوٹا ہوا آئینہ جو رستے میں پڑا تھا
سورج کی طرح میری نگاہوں میں چبھا تھا
نام اپنا ہی میں سب سے کھڑا پوچھ رہا تھا
کچھ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا تھا
آنکھوں کے دریچے نظر آتے تھے مقفل
اور ذہن کے کمرے میں دھواں پھیل رہا تھا
جاتی ہوئی بارات نے اک لمحہ ٹھٹک کر
ٹھہری ہوئی اک لاش پہ ماتم بھی کیا تھا
ماضی نہیں مرتا ہے یقیں آ گیا مجھ کو
بیتا ہوا ہر پل وہ لیے ساتھ کھڑا تھا
طوفان کی زد میں تھے خیالوں کے سفینے
میں الٹا سمندر کی طرف بھاگ رہا تھا

غزل
ٹوٹا ہوا آئینہ جو رستے میں پڑا تھا
آفتاب شمسی