اسیر جسم ہوں دروازہ توڑ ڈالے کوئی
گرا پڑا ہوں کنوئیں میں مجھے نکالے کوئی
میں اپنے آپ میں اترا کھڑا ہوں صدیوں سے
قریب آ کے مرے میری تھاہ پا لے کوئی
میں جنگلوں میں درندوں کے ساتھ رہتا رہا
یہ خوف ہے کہ اب انساں نہ آ کے کھا لے کوئی
شکستہ کشتی کے تختے پہ سو رہا ہوں میں
تھپیڑا موجوں کا آ کر مجھے جگا لے کوئی
دہان زخم تلک کھنچ کے آ چکا ہے اب
میں منتظر ہوں یہ زہراب چوس ڈالے کوئی
زمین پیاسی ہے تن میں لہو نہیں باقی
ہمارا بوجھ بہت کم ہے اب اٹھا لے کوئی
یقیں نہیں ہے کسی کو مرے بکھرنے کا
کثیف ذہنوں کے کر جائے صاف جالے کوئی
غزل
اسیر جسم ہوں دروازہ توڑ ڈالے کوئی
آفتاب شمسی